مصنوعی ذہانت، ’اتنی بڑی تبدیلی آئے گی جو دنیا نے پہلے نہیں دیکھی‘

آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی عمومی ذہانت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی جو دنیا نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کے استعمال سے کسی بھی مشین سے ایسا کام کروایا جا سکے گا جو صرف انسان ہی اپنے دماغ اور ذہانت کی وجہ سے کرنے کے قابل ہے۔
آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کا تصور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے مقابلے میں کئی زیادہ وسیع ہے۔
اے آئی کی ایک مثال چیٹ جی پی ٹی نامی سافٹ ویئڑ ہے جو صرف چند مخصوص کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی لانچ کے بعد سے اے جی آئی کے آئیڈیا کو حقیقی شکل دینے کی امید مزید بڑھ گئی ہے۔
تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اے جے آئی کے استعمال میں تاریخی تبدیلی نہ صرف انسانوں کی نوکریوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے بلکہ ایسے سماجی مسائل بھی پیدا کر دے گی جن پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ’رن وے‘ کے سربراہ سیکی چن کا کہنا ہے کہ ’ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس سے پہلے ہونے والی دریافتیں بھی سماجی تبدیلی کا باعث بنیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم ذہانت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سے آنے والی تبدیلی کسی بھی ٹیکنالوجیکل دریافت سے آنے والی تبدیلی سے بہت بڑی ہوگی۔
اس سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کے ذریعے مضامین، نظمیں اور گانے لکھنے کے علاوہ تصاویر اور آرٹ تخلیق کیا جا سکتا ہے تو پھر انسانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا کہ مصنوعی ذہانت کو غیر جانبدار، درست اور مختلف ممالک کے کلچر کے مطابق بنایا جائے۔
چیٹ جی پی ٹی متعارف کرنے والی کمپنی اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ وہ بتدریج اے جی آئی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے تمام انسانیت کو فائدہ پہنچے جبکہ دوسری جانب کمپنی نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کے سافٹ ویئر میں حفاظتی مسائل موجود ہیں۔
اوپن اے آئی کے چیف سائنسدان کا کہنا ہے کہ سافٹ ویئر کو محفوظ بنانے کے لیے ایک عمل سے گزرنا ضروری ہے اور کمپنیوں کو ایسا طریقہ کار تشکیل دینا چاہیے کہ اے آئی ماڈل لانچ کرنے میں جلدی بازی نہ کریں۔
ان ٹیکنالوجی کمپنیوں سے منسلک افراد کے خیال میں اس شعبے میں سست روی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اے آئی پر کام کرنے والی ایک کمپنی کی بانی شیرون ژو کا کہنا ہے کہ طاقت ان لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے جو اس قسم کے ماڈل ایجاد کر سکتے ہیں اور فیصلے کرنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے اور وہ اپنی رفتار میں کمی لانے پر تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دوڑ کی ایک وجہ چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت ہے اور یہ خطرہ موجود ہے کہ جو بھی ملک جتنا جلدی اے جی آئی پر مہارت حاصل کر لے گا، دنیا کی حکمرانی اسی کے حصے میں آئے گی۔

Views= (260)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین