’ہم صرف ڈگریاں بانٹتے ہیں‘، خلائی دوڑ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

آپ یہ دیکھ لیں کہ سپارکو کا سربراہ کون ہے اور اسرو کا کون ہے؟

23 اگست 2023 انڈیا کے لیے ایک ایسا دن ثابت ہوا جس نے عالمی افق پر اس کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل کرا دیا جو چاند تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
انڈیا کی جانب سے روانہ کیا جانے والا چندریان تھری مشن بدھ کی شام تقریباً چھ بجے چاند کے قطب جنوبی حصے پر اُترا۔
اس کے نتیجے میں انڈیا چاند کے اس حصے پر خلائی جہاز اتارنے والا پہلا اور امریکہ، سابق سوویت یونین اور چین کے بعد سافٹ لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے۔
اس کامیاب لینڈنگ کے بعد انڈیا کی خلائی ایجنسی اسرو کے ہیڈکوارٹر کے آپریشن سینٹر میں جشن کا سماں تھا۔
چندریان مشن 14 جولائی کو انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے روانہ ہوا تھا اور 40 دن کے طویل سفر کے بعد یہ 23 اگست کو چاند کے جنوبی قطب پر اُترا۔
اس تاریخی کامیابی کے بعد جہاں انڈیا میں جشن کا سماں تھا وہی پاکستانی سوشل میڈیا صارفین پڑوسی ملک کو مبارک باد دیتے نظر آئے، لیکن ساتھ ہی کچھ لوگوں نے پاکستان کے خلائی و بالائے فضائی تحقیقاتی ماموریہ (سپارکو) کی کارکردگی پر نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ یہاں تک پوچھا کہ اس کے دفاتر کا کسی کو پتہ ہے۔
ایسے میں یہ خیال آیا کہ پاکستان کے سپیس پروگرام کے حوالے سے پتہ کیا جائے اور سپارکو کے عہدیداران سے پوچھا جائے کہ ہم اس خلائی دوڑ میں کہاں کھڑے ہیں اور کیا ہم بھی انڈیا کی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟ لیکن اس سرکاری ادارے سے ان سوالات کے جوابات جاننا کافی جاں گسل ثابت ہوا۔
بڑی مشکل سے جب اسلام آباد میں سپارکو کے ہیڈ آفس میں ایک عہدیدار سے رابطہ ہوا تو انہوں نے اپنا نام اور سپیس پروگرام کے حوالے سے بات کرنے سے واضح انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’کل سے سوشل میڈیا پر چل رہی ٹرولنگ کے بعد وہ اس حوالے سے نہ کوئی بات کریں گے اور نہ اپنا نام بتائیں گے۔ آپ سیکریٹری سپارکو یا میڈیا کے لیے فوکل پرسن سے رابطہ کریں۔‘
تھوڑی کوشش کر کے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ انڈیا کیوں چاند پر پہنچ گیا اور ہم کیوں پیچھے ہیں؟ تو فون بند کرنے سے قبل بس انہوں نے اتنا کہا کہ ’آپ یہ دیکھ لیں کہ ہمارا سربراہ کون ہے اور اسرو کا کون ہے، آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا کہ انڈیا چاند پر اور ہم زمین پر کیوں ہیں۔‘
’سنہ 2001 سے قبل سپارکو نے جتنے سیٹلائٹ لانچ کیے وہ مکمل طور پر اس کی اپنی ٹیم کا کام تھا جبکہ بعد میں جتنے بھی لانچ کیے گئے ان میں مختلف ممالک کی مدد شامل تھی۔‘
سپارکو سے کسی بھی طرح وابستہ افراد میں سے کوئی ایک بھی سوالوں کے جواب دینے پر رضا مند نہیں تھا۔
پاکستان سپیس پروگرام کہاں کھڑا ہے اور انڈیا کیسے آگے نکل گیا؟ اس پر فزکس کے ممتاز استاد پرویز ہود بھائی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کا سپیس پروگرام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ سپارکو پہلے بنا اور اسرو اس کے بعد جا کر بنا۔ سپارکو نے جو سیٹلائٹ بنائے تھے جنہیں چینی راکٹس پر رکھ کر مدار میں پہنچایا گیا وہ بھی ناقص ہی نکلے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس وہ دماغ ہی نہیں ہیں، یہاں سائنسی مضامین پڑھائے تو جاتے ہیں لیکن ویسے نہیں جیسے پڑھائے جانے چاہییں۔ ہمارا مسئلہ تعلیم کا ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا سپارکو کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے، پرویز ھودبھائی نے کہا کہ ’ہمارا وسائل کا مسئلہ نہیں ہے۔ چاند پر جانے کا یہ مشن ڈیڑھ ایف-16 طیارے کی قیمت کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں صلاحیتوں کی کمی ہے، انڈیا کے پاس بے شمار سائنس دان ہیں اور ہم یہاں صرف ڈگریاں بانٹتے ہیں۔‘
’ہمارے ہاں منطقی اور سائنسی سوچ پروان نہیں چڑھی اور یہ صرف ریاست کا نہیں بلکہ عوام کا بھی مسئلہ ہے، اور کئی سو برسوں سے یہی صورتحال ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا اگر سپارکو کے سربراہ (اس وقت میجر جنرل امیر ندیم سربراہ ہیں) کوئی سائنس دان ہوتے تو معاملات مخلتف ہو سکتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ سربراہان کا کسی حد تک ہی اثر پڑتا ہے۔ ابھی ایک جنرل اس کی سربراہی کر رہے ہیں لیکن جب سائنس دان تھے تو وہ بھی عجیب و غریب باتیں کرتے تھے۔ جرنیلوں کے آنے سے پہلے بھی کوئی اتنے اچھے معاملات نہیں تھے۔
خیال رہے کہ سپارکو کا قیام 16 ستمبر 1961 میں ہوا تھا اور اس کے پہلے چیئرمین پاکستان کے معروف نوبیل انعام یافتہ سائنس دار ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔

Views= (417)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین